منزل عشق کے راہبر کھو گئے
میرے ہمدم مرے ہم سفر کھو گئے
انقلاب زمانہ نے کروٹ جو لی
ذکر اک دو کا کیا گھر کے گھر کھو گئے
ہو گئی ختم رسم ملاقات بھی
وہ نظارے وہ شام و سحر کھو گئے
ہم نے ہر گام پر ساتھ چاہا مگر
قافلے ہر نئے موڑ پر کھو گئے
میں جو دامن میں لایا تھا آنسو ترے
داغ ہیں ان کے لعل و گہر کھو گئے
بات یہ راز کی ہے کہ سب راہ رو
رفتہ رفتہ ہر اک موڑ پر کھو گئے
جب مکمل ہوئی شمس کی داستاں
مصلحت ہے کہ اہل نظر کھو گئے
غزل
منزل عشق کے راہبر کھو گئے
شمس فرخ آبادی