منزل بے جہت کی خیر سعیٔ سفر ہے رائیگاں
اہل وفا کے قافلے پھر بھی تو ہیں رواں دواں
زہر ہے میرے جام میں ہونٹوں پہ آ گئی ہے جاں
پھر بھی مجھے حیات پر تیرے کرم کا ہے گماں
دہر پہ میں کھلا نہیں مجھ کو خدا ملا نہیں
آپ ہی اپنا راز ہوں آپ ہی اپنا رازداں
حسن کو چھو کے دیکھنا آگ تھا موم کے لئے
روح پگھل کے رہ گئی عقل ہوئی دھواں دھواں
وہ بھی تو ہیں کہ زندگی جن کے لئے ہے انگبیں
ذائقۂ حیات سے اینٹھ گئی مری زباں
گوش گل بہار میں کس نے کہا ہے حرف شوق
کون ہے میرا ترجماں کس کو ملی مری زباں

غزل
منزل بے جہت کی خیر سعیٔ سفر ہے رائیگاں
سلیم احمد