منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی
ہر چند تیری یاد مرے آس پاس تھی
میلوں تھی اک جھلستی ہوئی دوپہر کی قاش
سینے میں بند سینکڑوں صدیوں کی پیاس تھی
اٹھے نہا کے شعلوں میں اپنے تو یہ کھلا
سارے جہاں میں پھیلی ہوئی تیری باس تھی
کیسے کہوں کہ میں نے کہاں کا سفر کیا
آکاش بے چراغ زمیں بے لباس تھی
اب دھول میں اٹی ہوئی راہوں پہ ہے سفر
وہ دن گئے کہ پاؤں تلے نرم گھاس تھی
غزل
منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی
وزیر آغا