منظر کی دیوار کے پیچھے اک منظر
کالی چادر سے منہ ڈھانپے اک منظر
میں جیسے ہی اک منظر تخلیق کروں
آ کر فوراً اس کو کاٹے اک منظر
چہرہ پڑھنا چاہوں تو اوجھل ہو جائے
دور کھڑا پھر ہاتھ ہلائے اک منظر
اک منظر چاقو سے گودے جسم مرا
پھر آ کر زخموں کو چاٹے اک منظر
اک منظر میں سانپ گلے سے آ لپٹے
پھر رگ رگ میں زہر اتارے اک منظر
بیچ بھنور سوراخوں والی اک کشتی
مجھے مری پہچان کرائے اک منظر
کب تک آنکھیں نیچی کر کے گزرو گے
آتے جاتے راہ میں ٹوکے اک منظر
دھرتی اور آکاش پریشاں دونوں ہیں
ایک سا عالم اوپر نیچے اک منظر
ہو سکتا ہے اک منظر کا ہو جاؤں
آ کر آنکھوں میں چبھ جائے اک منظر
غزل
منظر کی دیوار کے پیچھے اک منظر
خورشید طلب