منظر ہے ابھی دور ذرا حد نظر سے
سوغات سفر اور ہے اسباب سفر سے
تم میرے تعاقب کا تصور بھی نہ کرنا
پوچھو مری منزل مرے ٹوٹے ہوئے پر سے
میں شر کی شرارت سے تو ہشیار ہوں لیکن
اللہ بچائے تو بچوں خیر کے شر سے
بارش نے مری ٹوٹی ہوئی چھت نہیں دیکھی
آنگن میں لگی آگ تو بادل نہیں برسے
پتھر نہ بنا دے مجھے موسم کی یہ سختی
مر جائیں مرے خواب نہ تعبیر کے ڈر سے
دھل جاتا ہے سب درد مری روح کا اس میں
رحمت جو برستی ہے مرے دیدۂ تر سے
تنہائی پسندی مری فطرت کا بھی جز تھا
موسم بھی یہ کہتا ہے نکلنا نہیں گھر سے
انسان کوئی ہو تو میں تعویذ بنا لوں
دنیا مری بد تر ہوئی بھوتوں کے کھنڈر سے
پنہاںؔ مری غزلوں کو بہت ناز ہے اس پر
تاثیر کی دولت جو ملی دست ہنر سے
غزل
منظر ہے ابھی دور ذرا حد نظر سے
ڈاکٹر پنہاں