منصب عشق سے کچھ عہدہ برا میں ہی ہوا
تیرے کوچے میں سرافراز وفا میں ہی ہوا
کچھ چلی تو تیرے عاشق سے ہی تلوار چلی
جب ہوئی جنگ بپا مرد وغا میں ہی ہوا
گر کھلی تجھ پہ ہی خوشبوئے نہفتہ کوئی
تیرا محرم بھی تو اے باد صبا میں ہی ہوا
وہ جو بے اذن اڑا لاتا تھا خوشبو تیری
پہلے پہلے تو وہ گستاخ حنا میں ہی ہوا
کیسی شفاف فضا تھی یہاں اول اول
ایک موسم تو یہاں بال کشا میں ہی ہوا
کچھ تیری زلف کھلی تو میری سانسوں پہ کھلی
تجھ پہ آوارۂ ہم رنگ صبا میں ہی ہوا
تیری خاطر ہی تھا میں منصب و منبر کا حریص
تیری خواہش سے فقیر الفقرا میں ہی ہوا
تیرے باعث تھا میں سیار و ثوابت کا حریف
اور ترا اذن ہوا جب تو فنا میں ہی ہوا

غزل
منصب عشق سے کچھ عہدہ برا میں ہی ہوا
سید کاشف رضا