EN हिंदी
من کے برگد تلے انگاروں کی مالا بھی جپی | شیح شیری
man ke bargad tale angaron ki mala bhi japi

غزل

من کے برگد تلے انگاروں کی مالا بھی جپی

احمد رضی بچھرایونی

;

من کے برگد تلے انگاروں کی مالا بھی جپی
مجھ سے گوتم کی طرح آگ میں چمپا نہ کھلی

رات تنہائی نے کمرے میں جو کروٹ بدلی
نیند آنکھوں کو کسی سانپ کے پھن جیسی لگی

میرے ہی سانس سے میرے ہی بدن کی چادر
کون سمجھائے کسے آئے یقیں کیسے جلی

اس بھرے شہر میں اپنایا کسی نے نہ جسے
میں نے دیکھا تو رضیؔ لاش وہ میری نکلی