من کے برگد تلے انگاروں کی مالا بھی جپی
مجھ سے گوتم کی طرح آگ میں چمپا نہ کھلی
رات تنہائی نے کمرے میں جو کروٹ بدلی
نیند آنکھوں کو کسی سانپ کے پھن جیسی لگی
میرے ہی سانس سے میرے ہی بدن کی چادر
کون سمجھائے کسے آئے یقیں کیسے جلی
اس بھرے شہر میں اپنایا کسی نے نہ جسے
میں نے دیکھا تو رضیؔ لاش وہ میری نکلی
غزل
من کے برگد تلے انگاروں کی مالا بھی جپی
احمد رضی بچھرایونی