ملال زرد قبائی کو دھو رہا ہوگا
رگوں کا سرخ کہیں سبز ہو رہا ہوگا
وہ جس کے دم سے گلابی تھی خواب گاہ مری
نہ جانے کس کے دھندلکوں سے سو رہا ہوگا
مرے سفید کسی کا رجوع مان بھی لے
کہ اب نہیں وہ سیہ راز گو رہا ہوگا
وہ کیسری جو مری اوڑھنی پہ کھل نہ سکا
اب اپنا بیچ کہیں اور بو رہا ہوگا
جو سرمئی میں کھلا جا رہا ہے شام ڈھلے
کہیں تو اپنا سنہرا سمو رہا ہوگا
ملے دلے سے پڑے ہیں جو نیل گوں لمحے
انہی کا زعم سماوات کو رہا ہوگا
پڑا ہے رنگ سے عاری بنت سے ادھڑا ہوا
گزشتہ نقرئی جھلمل کو رو رہا ہوگا
فضا یوں ہی تو نہیں ملگجی ہوئی جاتی
کوئی تو خاک نشیں ہوش کھو رہا ہوگا
قتیل رنگ نہ ہوگا وہ سیر چشم کبھی
وفا کی دودھیا بانہوں میں جو رہا ہوگا
غزل
ملال زرد قبائی کو دھو رہا ہوگا
حمیدہ شاہین