EN हिंदी
ملال جی پہ نہ یوں ایک چارہ گر نے لیا | شیح شیری
malal ji pe na yun ek chaaragar ne liya

غزل

ملال جی پہ نہ یوں ایک چارہ گر نے لیا

محشر بدایونی

;

ملال جی پہ نہ یوں ایک چارہ گر نے لیا
اثر جو میری اداسی کا بام و در نے لیا

بٹا رہا یونہی غم ہائے روزگار کا بوجھ
کچھ اپنے دل نے سنبھالا کچھ اپنے سر نے لیا

لٹے تو لٹ کے یہ توقیر بھی ہمیں کو ملی
گئے جدھر بھی ہمیں سر پہ رہگزر نے لیا

جو شیشہ ٹوٹا چنا دل نے ریزہ ریزہ اسے
جو رنگ بکھرا وہ پلکوں پہ چشم تر نے لیا

ہم ایسے خانہ خرابوں سے اور کیا ملتا
بس ایک لطف تماشا نظر نظر نے لیا

یہ سوچتا ہوں تو ڈستی ہے اور شاخ چمن
سکوں کا نام ہی کیوں اک شکستہ پر نے لیا

جو گھر میں پرتو ضو تھا اسے بجھا گئی رات
جو دل میں ورثۂ خوں تھا وہ سب سحر نے لیا

خیال بے خبراں تو بہت رہا ان کو
پتا کچھ اپنا بھی یاران با خبر نے لیا

دل اشک اشک دماغ آگ آگ ہے محشرؔ
یہ انتقام بھی مجھ سے مرے ہنر نے لیا