EN हिंदी
ملال غنچۂ تر جائے گا کبھی نہ کبھی | شیح شیری
malal-e-ghuncha-e-tar jaega kabhi na kabhi

غزل

ملال غنچۂ تر جائے گا کبھی نہ کبھی

سید امین اشرف

;

ملال غنچۂ تر جائے گا کبھی نہ کبھی
وہ خاک اڑا کے گزر جائے گا کبھی نہ کبھی

میں لالۂ سر صحرا مکاں نہیں رکھتا
کہ دشت ہے مرے گھر جائے گا کبھی نہ کبھی

برہنہ شاخ ہوا زرد بے زمین شجر
پرندہ سوئے سفر جائے گا کبھی نہ کبھی

کہیں بھی طائر آوارہ ہو مگر طے ہے
جدھر کماں ہے ادھر جائے گا کبھی نہ کبھی

کسی کے ہاتھ سے ٹوٹے نہ شیشۂ صد رنگ
یہ ریزہ ریزہ بکھر جائے گا کبھی نہ کبھی

گزشتنی ہے یہ سب کچھ جو ہونے والا ہے
وہ حادثہ بھی گزر جائے گا کبھی نہ کبھی

وہ نو بہار بھی آفت ہے دستۂ سنبل
ز فرق تا بہ کمر جائے گا کبھی نہ کبھی

یہ عشق ہے کہ خمار طلب ہے کیا معلوم
خمار ہے تو اتر جائے گا کبھی نہ کبھی