مکاں سے دور کہیں لا مکاں سے ہوتا ہے
سفر شروع یقیں کا گماں سے ہوتا ہے
وہیں کہیں نظر آتا ہے آپ کا چہرہ
طلوع چاند فلک پر جہاں سے ہوتا ہے
ہم اپنے باغ کے پھولوں کو نوچ ڈالتے ہیں
جب اختلاف کوئی باغباں سے ہوتا ہے
مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ عشق کا آغاز
اب ابتدا سے نہیں درمیاں سے ہوتا ہے
عروج پر ہے چمن میں بہار کا موسم
سفر شروع خزاں کا یہاں سے ہوتا ہے
زوال موسم خوش رنگ کا گلہ عاصمؔ
زمین سے تو نہیں آسماں سے ہوتا ہے
غزل
مکاں سے دور کہیں لا مکاں سے ہوتا ہے
عاصمؔ واسطی