مکان خواب میں جنگل کی باس رہنے لگی
کوئی نہ آیا تو زینوں پہ گھاس رہنے لگی
ترے وجود کا جب سے لباس رہنے لگی
لیے دئیے ہوئے مجھ سے کپاس رہنے لگی
یہ اور بات انوکھی سی پیاس رہنے لگی
مری زبان پہ اس کی مٹھاس رہنے لگی
جھلک تھی یا کوئی خوشبوئے خد و خال تھی وہ
چلی گئی تو مرے آس پاس رہنے لگی
گیا ہجوم لیے باز دید نقش قدم
ہوائے راہ گزر بد حواس رہنے لگی
ذرائع جو تھے میسر ہوئے غبار شناخت
دروں سے چشم دروں نا شناس رہنے لگی
ابھی غبار نہ اترا تھا سانس کا اندر
اترنے کی پس زنداں بھڑاس رہنے لگی
اتار پھینک دیا جو تھا جسم بوسیدہ
ستاروں کی کوئی اترن لباس رہنے لگی
زیادہ زور لگانے سے کچھ نہ ہو سکتا
سو آئے روز کی ہلچل ہی راس رہنے لگی
لحد نے دامن یخ بستہ کھول کر رکھا
بدن میں گرمیٔ خوف و ہراس رہنے لگی
نہ جانے اندھے کنوؤں کی وہ تشنگی تھی کیا
ہر ایک آنکھ میں جو بے لباس رہنے لگی
بگاڑ جس سے ہو پیدا کوئی بگاڑ نہیں
سو معجزے کی مرے دل کو آس رہنے لگی
مغائرت سے بھری تیرگی کے بیچ نویدؔ
اک اندرونی رمق روشناس رہنے لگی
غزل
مکان خواب میں جنگل کی باس رہنے لگی
افضال نوید