مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے
اور اس میں ایک رستہ ہو گیا ہے
انہیں منظور کرنا ہی پڑے گا
عریضہ دست بستہ ہو گیا ہے
سیاسی رہنماؤں کی بدولت
ہمارا خون سستا ہو گیا ہے
کمان جسم ہے موجود لیکن
شباب اک تیر جستہ ہو گیا ہے
زبوں ہے اس قدر دنیا کی حالت
ہمارا غم بھی خستہ ہو گیا ہے
شکستہ اور پسپا کرشنؔ موہن
ہمارا فوجی دستہ ہو گیا ہے
غزل
مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے
کرشن موہن