EN हिंदी
مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے | شیح شیری
makan andar se KHasta ho gaya hai

غزل

مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے

کرشن موہن

;

مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے
اور اس میں ایک رستہ ہو گیا ہے

انہیں منظور کرنا ہی پڑے گا
عریضہ دست بستہ ہو گیا ہے

سیاسی رہنماؤں کی بدولت
ہمارا خون سستا ہو گیا ہے

کمان جسم ہے موجود لیکن
شباب اک تیر جستہ ہو گیا ہے

زبوں ہے اس قدر دنیا کی حالت
ہمارا غم بھی خستہ ہو گیا ہے

شکستہ اور پسپا کرشنؔ موہن
ہمارا فوجی دستہ ہو گیا ہے