مجنوں کو اپنی لیلیٰ کا محمل عزیز ہے
تو دل میں ہے ہمارے ہمیں دل عزیز ہے
ابرو و چشم و زلف مژہ کی تو کہیے کیا
ہم کو تو تیرے منہ سے ترا تل عزیز ہے
دل کو کیا جو قتل تو اس نے بھلا کیا
مجھ کو تو اپنے دل سے وہ قاتل عزیز ہے
اتنا نہیں کوئی کہ پکڑ آستیں مری
اس سے کہے کہ تجھ پہ یہ مائل عزیز ہے
جا بیٹھتے ہیں چھپ کے کبھی ہم بھی اس جگہ
اس واسطے ہمیں تری محفل عزیز ہے
اک نقش دے کہ جس سے مسخر ہو وہ پری
ایسا بھی دوستو کوئی عامل عزیز ہے
کیوں کر کروں نہ اس دل مجروح کا علاج
مدت کا ہے رفیق یہ گھائل عزیز ہے
نے حور نہ پری ہے نہ وہ ماہ و مشتری
اک نور ہے کہ سب کو وہ حاصل عزیز ہے
ہجراں میں انتظار بھی ہے اس کا مغتنم
جو ڈوبتا ہو اس کو تو ساحل عزیز ہے
آن و ادا میں ٹھور ہی رکھتا ہے خلق کو
اپنے تو فن میں ایک وہ کامل عزیز ہے
کیوں کر نہ چاہے اس کو ہر اک جان کی طرح
خواہش میں اس کی سب ہیں وہ ہر دل عزیز ہے
ہر پھر کے تیرے کوچہ میں کرتے ہیں ہم مقام
ہم سے مسافروں کو یہ منزل عزیز ہے
صحبت سے کوئی کیونکہ حسنؔ کے نہ ہووے خوش
شاعر ہے یار باش ہے قابل عزیز ہے
غزل
مجنوں کو اپنی لیلیٰ کا محمل عزیز ہے
میر حسن