مجنوں کا جو اے لیلیٰ جوتا نہ پھٹا ہوتا
پیچھے ترے ناقہ کے کیوں برہنہ پا ہوتا
بے فائدہ غل مچتا کیا جانیے کیا ہوتا
گر ان کی گلی ہوتی اور میرا گلا ہوتا
ہوتا اگر آدم کا دنیا میں کوئی بھائی
نسل بنی آدم کا واللہ چچا ہوتا
گر قیس کی وحشت کا کچھ اونٹ اثر لیتا
لیلیٰ کو گرا دیتا اور بھاگ کھڑا ہوتا
مفلس سے زیادہ تر منعم ہی گرسنہ ہیں
کیوں روز ہوا کھاتے گر پیٹ بھرا ہوتا
وہ بن کے مسیحا بھی اچھا جو نہ کر سکتے
بیمار ترے حق میں یہ اور برا ہوتا
معدوم دہن ہوتا مفقود کمر ہوتی
معشوق ظریفؔ ایسا ہوتا بھی تو کیا ہوتا
غزل
مجنوں کا جو اے لیلیٰ جوتا نہ پھٹا ہوتا
ظریف لکھنوی