مجمع مرے حصار میں سیلانیوں کا ہے
جنگل ہوں میرا فرض نگہ بانیوں کا ہے
قطرے گریز کرنے لگے روشنائی کے
قصہ کسی کے خون کی ارزانیوں کا ہے
خوش رنگ پیرہن سے بدن تو چمک اٹھے
لیکن سوال روح کی تابانیوں کا ہے
رونے سے اور لطف وفاؤں کا بڑھ گیا
سب ذائقہ پھلوں میں نئے پانیوں کا ہے
سو بستیاں اجاڑیے دل کو نہ توڑیئے
یہ سنگ محترم کئی پیشانیوں کا ہے
محفوظ رہ سکیں گے سفینے کہاں تلک
موجوں میں بند و بست ہی طغیانیوں کا ہے
ہوتی ہیں دستیاب بڑی مشکلوں کے بعد
شاہدؔ حیات نام جن آسانیوں کا ہے
غزل
مجمع مرے حصار میں سیلانیوں کا ہے
شاہد میر