مجبوریوں کا پاس بھی کچھ تھا وفا کے ساتھ
وہ راستے سے پھر گیا کچھ دور آ کے ساتھ
قرب بدن سے کم نہ ہوئے دل کے فاصلے
اک عمر کٹ گئی کسی نا آشنا کے ساتھ
ساتھ اس کے رہ سکے نہ بغیر اس کے رہ سکے
یہ ربط ہے چراغ کا کیسا ہوا کے ساتھ
میں جھیلتا رہا ہوں عذاب اس کا عمر بھر
بچپن میں ایک عہد کیا تھا خدا کے ساتھ
پہلے تو ایک خانۂ ویراں کا شور تھا
اب دل بھی گونجتا ہے خروش ہوا کے ساتھ
یہ رنگ دست ناز یونہی تو نہیں سلیمؔ
دل کا لہو بھی صرف ہوا ہے حنا کے ساتھ
غزل
مجبوریوں کا پاس بھی کچھ تھا وفا کے ساتھ
سلیم احمد