مجبور تو بہت ہیں محبت میں جی سے ہم
یہ اور بات ہے نہ کہیں کچھ کسی سے ہم
اک شام ہم سخن تھے چمن میں کلی سے ہم
یادش بخیر پھر نہ ملے زندگی سے ہم
اللہ رے وہ وقت وہ مجبورئ حیات
رو رو کے ہو رہے تھے جدا جب کسی سے ہم
تکلیف التفات نہ کر اے نگاہ ناز
اب مطمئن ہیں اپنے غم زندگی سے ہم
ہیں یاد اس نظر کی تغافل شعاریاں
با وصف ارتباط بھی تھے اجنبی سے ہم
بڑھتی ہی جا رہی ہیں عبث بدگمانیاں
نا آشنا نہیں ہیں تری برہمی سے ہم
ایک اک ادائے حسن گریزاں نظر میں ہے
پامال ہو رہے ہیں بڑی بے رخی سے ہم
ہر سو ہے ایک عالم وحشت شب فراق
گھبرا رہے ہیں سلسلۂ تیرگی سے ہم
غارت کیا ہے جس نے ہمارا سکون دل
مضطرؔ سکون دل کے ہیں خواہاں اسی سے ہم
غزل
مجبور تو بہت ہیں محبت میں جی سے ہم
رام کرشن مضطر