میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا
جیسے کہ ایک دشت سے دریا گزر گیا
یوں جگمگا اٹھا ہے تری یاد سے وجود
جیسے لہو سے کوئی ستارہ گزر گیا
گزرا مرے قریب سے وہ اس ادا کے ساتھ
رستے کو چھو کے جس طرح رستہ گزر گیا
منظر میں گھل گئے ہیں دھنک کے تمام رنگ
بے رنگ آئینے سے وہ لمحہ گزر گیا

غزل
میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا
فہیم شناس کاظمی