EN हिंदी
میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا | شیح شیری
main yun jahan ke KHwab se tanha guzar gaya

غزل

میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا

فہیم شناس کاظمی

;

میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا
جیسے کہ ایک دشت سے دریا گزر گیا

یوں جگمگا اٹھا ہے تری یاد سے وجود
جیسے لہو سے کوئی ستارہ گزر گیا

گزرا مرے قریب سے وہ اس ادا کے ساتھ
رستے کو چھو کے جس طرح رستہ گزر گیا

منظر میں گھل گئے ہیں دھنک کے تمام رنگ
بے رنگ آئینے سے وہ لمحہ گزر گیا