میں اسے اپنے مقابل دیکھ کر گھبرا گیا
اک سراپا مجھ کو زنجیریں نئی پہنا گیا
میں تو جل کر بجھ چکا تھا اک کھنڈر کی گود میں
وہ نہ جانے کیوں مجھے ہنستا ہوا یاد آ گیا
میں زمیں کی وسعتوں میں سر سے پا تک غرق تھا
وہ نظر کے سامنے اک آسماں پھیلا گیا
سوچ کے دھاگوں میں لپٹا میرا اپنا جسم تھا
ایک لمحہ مجھ کو اپنی ذات میں الجھا گیا
میں تو شاید وقت کے سانچے میں ڈھل جاتا نثارؔ
کوئی مجھ کو ماورا کی داستاں سمجھا گیا

غزل
میں اسے اپنے مقابل دیکھ کر گھبرا گیا
رشید نثار