میں اس کی آنکھ میں وہ میرے دل کی سیر میں تھا
وہ اپنے شہر میں اور میں دیار غیر میں تھا
ہم اپنے گھر سے بہت دور جا کے لوٹ آئے
کسی کی آنکھ کا کانٹا ہمارے پیر میں تھا
ملا تو اشک ندامت کی تہ میں اس کا سراغ
کسی کے دل میں نہ کعبے میں تھا نہ دیر میں تھا
میں جانتا ہوں لیا جا رہا تھا میرا نام
میں دشمنوں کی طرح اس کے ذکر خیر میں تھا
نہ جانے کیسے مسائل تھے اپنے رشتوں میں
سکون صلح کے عالم میں تھا نہ بیر میں تھا
یہ اور بات کہ وہ سب سے پہلے ڈوب گیا
تمہارا تاجؔ بھی خود آگہی کی تیر میں تھا

غزل
میں اس کی آنکھ میں وہ میرے دل کی سیر میں تھا
حسین تاج رضوی