میں اس کے خواب میں کب جا کے دیکھ پایا ہوں
ہے اور کوئی وہاں پر کہ میں ہی تنہا ہوں
تمہیں خبر ہے گھروندوں سے کھیلتے بچو
میں تم میں اپنا گیا وقت دیکھ لیتا ہوں
تم اس کنارے کھڑے ہو بلا رہے ہو مجھے
یقیں کرو کہ میں اس اور سے ہی آیا ہوں
وہ اپنے گاؤں سے کل ہی تو شہر آیا ہے
وہ بات بات پہ ہنستا ہے میں لرزتا ہوں
وہ کہہ رہے ہیں روایت کا احترام کرو
میں اپنی نعش کی بدبو سے بھاگا پھرتا ہوں
روایتاً میں اسے چاند کہہ تو دوں تابشؔ
کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کہ میں بناتا ہوں
غزل
میں اس کے خواب میں کب جا کے دیکھ پایا ہوں
فضل تابش