EN हिंदी
میں ان کو کبھی حد سے گزرنے نہیں دوں گا | شیح شیری
main un ko kabhi had se guzarne nahin dunga

غزل

میں ان کو کبھی حد سے گزرنے نہیں دوں گا

علیم عثمانی

;

میں ان کو کبھی حد سے گزرنے نہیں دوں گا
اس ترک تعلق کو میں چلنے نہیں دوں گا

تم لاکھ اچھالا کرو الفاظ کے شعلے
فردوس محبت کو میں جلنے نہیں دوں گا

کرنا ہی پڑے چاہے صبا سے مجھے سازش
میں آپ کے گیسو کو سنورنے نہیں دوں گا

مایوس نگاہوں سے تم آئینہ نہ دیکھو
میں اپنی نگاہوں کو بدلنے نہیں دوں گا

باریک سہی لاکھ کسی شوخ کا آنچل
نظروں کو میں شیشے میں اترنے نہیں دوں گا

جب اس کی بچھڑتے ہوئے بھر آئیں گی آنکھیں
کس طرح میں ساون کو برسنے نہیں دوں گا

وہ چاہے علیمؔ اب کبھی آئیں کہ نہ آئیں
تا عمر میں پلکوں کو جھپکنے نہیں دوں گا