میں تجھ سے لاکھ بچھڑ کر یہاں وہاں جاتا
مری جبین سے سجدوں کا کب نشاں جاتا
زمین مجھ کو سمجھتی نہ آسماں کوئی
گناہ گار ہی کہلاتا میں جہاں جاتا
نصیب سے تو ملے تھے فقط یہ خالی ہاتھ
فراخ دل وہ نہ ہوتا تو میں کہاں جاتا
مجھے خبر نہ تھی اس گھر میں کتنے کمرے ہیں
میں کیسے لے کے وہاں ساری داستاں جاتا
میں ایک گونج کی مانند لوٹتا اس تک
جہاں سے مجھ کو بلاتا میں بس وہاں جاتا

غزل
میں تجھ سے لاکھ بچھڑ کر یہاں وہاں جاتا
سلمان اختر