EN हिंदी
میں تجھ سے لاکھ بچھڑ کر یہاں وہاں جاتا | شیح شیری
main tujhse lakh bichhaD kar yahan wahan jata

غزل

میں تجھ سے لاکھ بچھڑ کر یہاں وہاں جاتا

سلمان اختر

;

میں تجھ سے لاکھ بچھڑ کر یہاں وہاں جاتا
مری جبین سے سجدوں کا کب نشاں جاتا

زمین مجھ کو سمجھتی نہ آسماں کوئی
گناہ گار ہی کہلاتا میں جہاں جاتا

نصیب سے تو ملے تھے فقط یہ خالی ہاتھ
فراخ دل وہ نہ ہوتا تو میں کہاں جاتا

مجھے خبر نہ تھی اس گھر میں کتنے کمرے ہیں
میں کیسے لے کے وہاں ساری داستاں جاتا

میں ایک گونج کی مانند لوٹتا اس تک
جہاں سے مجھ کو بلاتا میں بس وہاں جاتا