میں توڑوں عہد و پیمان وفا یہ ہو نہیں سکتا
وہ ہوتے ہیں تو ہو جائیں جدا یہ ہو نہیں سکتا
پلا ساقی کہ شغل مے کشی کا وقت جاتا ہے
یوں ہی چھائی رہے کالی گھٹا یہ ہو نہیں سکتا
وہ چشم سرمگیں جب تک مسیحائی نہ فرمائے
مریض غم کو ہو جائے شفا یہ ہو نہیں سکتا
نہ دیکھے شیخ تو جب تک بتوں کو میری آنکھوں سے
نظر آئے تجھے شان خدا یہ ہو نہیں سکتا
وہ باز آئیں جفا و جور سے یہ غیر ممکن ہے
میں چھوڑوں خوئے تسلیم و رضا یہ ہو نہیں سکتا
ندامت ہو مجھے اپنی جفا پر یہ تو ممکن ہے
ترا دل ہو پشیمان جفا یہ ہو نہیں سکتا
پسندیدہ نہ ہو سیمابؔ کیوں طرز سخن تیری
نہ لائے رنگ فیضان ہما یہ ہو نہیں سکتا
غزل
میں توڑوں عہد و پیمان وفا یہ ہو نہیں سکتا
سیماب بٹالوی