EN हिंदी
میں تو چپ تھا مگر اس نے بھی سنانے نہ دیا | شیح شیری
main to chup tha magar usne bhi sunane na diya

غزل

میں تو چپ تھا مگر اس نے بھی سنانے نہ دیا

شاذ تمکنت

;

میں تو چپ تھا مگر اس نے بھی سنانے نہ دیا
غم دنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دیا

اس کا زہرابۂ پیکر ہے مری رگ رگ میں
اس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دیا

اس نے دوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا
کچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دیا

بادباں اپنے سفینہ کا ذرا سی لیتے
وقت اتنا بھی زمانہ کی ہوا نے نہ دیا

وہی انعام زمانہ سے جسے ملنا تھا
لوگ معصوم ہیں کہتے ہیں خدا نے نہ دیا

کوئی فریاد کرے گونج مرے دل سے اٹھے
موقع درد کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا

شاذؔ اک درد سے سو درد کے رشتے نکلے
کن مصائب نے اسے جی سے بھلانے نہ دیا