میں تو بیٹھا تھا ہر اک شے سے کنارا کر کے
وقت نے چھوڑ دیا دوست تمہارا کر کے
بات دریا بھی کبھی رک کے کیا کرتا تھا
اب تو ہر موج گزرتی ہے اشارا کر کے
وہ عجب دشمن جاں تھا جو مجھے چھوڑ گیا
میرے اندر ہی کہیں مجھ کو صف آرا کر کے
اک دیا اور جلایا ہے سحر ہونے تک
شب ہجراں ترے نام ایک ستارا کر کے
جب سے جاگی ہے ترے لمس کی خواہش دل میں
رہنا پڑتا ہے مجھے خود سے کنارا کر کے
دشت چھانے گا تری خاک محبت سے سعیدؔ
عشق دیکھے گا تجھے سارے کا سارا کر کے
غزل
میں تو بیٹھا تھا ہر اک شے سے کنارا کر کے
مبشر سعید