میں تو ایسا کوئی منظر کبھی دیکھا نہ تھا
دن ڈھلا جاتا تھا اور سایہ کوئی لمبا نہ تھا
پھر تو اس کے سامنے جیسے کوئی رستہ نہ تھا
جیتنے والا کبھی یوں حوصلہ ہارا نہ تھا
لوگ تو کہتے تھے لیکن میں بھی تو اندھا نہ تھا
میں نے خود دیکھا ہے میرے دھڑ پہ بھی چہرہ نہ تھا
روکنا چاہا تھا میں نے وہ بھی رک جاتا مگر
ایک جھونکا تھا ہوا کا وہ ٹھہر سکتا نہ تھا
کتنے ہی کچے گھڑے لہروں کو یاد آنے لگے
ساحلوں کے ہونٹوں پر ایسا کوئی نوحہ نہ تھا
گود میں ماؤں کی بچے رات بھر روتے رہے
پاس پوتوں والیوں کے کیا کوئی قصہ نہ تھا

غزل
میں تو ایسا کوئی منظر کبھی دیکھا نہ تھا
شین کاف نظام