میں ترے شہر میں پھرتی رہی ماری ماری
کبھی گلشن کبھی صحرا کبھی وادی وادی
راہ پر پینچ تھی تنہائی تھی اندھیارا تھا
بے بسی کہتی رہی دشت میں ہادی ہادی
الجھنیں اور کسک ہو گئی تقدیر مری
خانقاہوں میں بھی جھانک آئے ہیں جالی جالی
چھڑ گیا پھر دل بیتاب پر اک ساز نیا
رخ ہستی پہ چھلکنے لگی لالی لالی
جانے کیسی یہ تڑپ ہے نہیں رکنے دیتی
جو تھکے میرے قدم آہ میں ہاری ہاری
رتجگوں کا بھی اثر ہونے لگا ہے کچھ کچھ
سرخ رہنے لگی آنکھیں مری کالی کالی
حسن ہی حسن تھا اور جلوے ہی جلوے ہر سو
کانپتے ہونٹوں سے کہتی رہی واری واری
منتظر جس کی رہی اس نے تو دیکھا بھی نہیں
باقی سب آ کے ملے بزم میں باری باری
اس کے جانے کے تصور سے بھر آئیں آنکھیں
دل مرا لگنے لگا خود مجھے خالی خالی
غزل
میں ترے شہر میں پھرتی رہی ماری ماری
اسریٰ رضوی