میں تنگ دستیٔ مہلت سے اتنا چاہتا ہوں
خود اپنے آپ سے ایک بار ملنا چاہتا ہوں
سوا بھرم کہیں کچھ بھی نہیں ہے تو پھر بھی
میں تھوڑی دور ترے ساتھ چلنا چاہتا ہوں
میں خود پہ قہر بھی ڈھاؤں حفاظتیں بھی کروں
میں اس خدائی صفت کو برتنا چاہتا ہوں
میں چاہتا ہوں سہاروں کے ساتھ ساتھ رہوں
میں لڑکھڑائے بنا ہی سنبھلنا چاہتا ہوں
سوال پھر سے ہے کردار کو بدلنے کا
میں اب کی بار بھی کپڑے بدلنا چاہتا ہوں
ہر ایک شو سے محبت ہے اس لئے مجھ کو
میں نفرتوں کے تصور سے بچنا چاہتا ہوں
غزل
میں تنگ دستیٔ مہلت سے اتنا چاہتا ہوں
ناظم نقوی