میں تمام گرد و غبار ہوں مجھے میری صورت حال دے
مری خاک ہے کہ اڑی ہوئی اسے جسم کے خد و خال دے
کہ نہ جانے کون مرے وجود پہ پاؤں رکھ کے چلا گیا
کوئی نقش پا ہوں رکا ہوا اسے راستے سے نکال دے
میں کروں تو کیا کہ جمے رہیں مرے پاؤں میری زمین پر
مرے گھر میں مجھ کو سنبھال یا مجھے میرے گھر سے نکال دے
یہ فلک شگاف عمارتیں مرے آب و گل سے بچھڑ گئیں
مرے آب و گل پہ کرم نہ کر تو عمارتوں کو زوال دے
وہ ملا کہ جیسے بچھڑ گیا کوئی سانحہ بھی نہیں ہوا
مرا عشق بھی کوئی عشق ہے کہ نہ خوش کرے نہ ملال دے
مرے ہونٹھ جانے کہاں گئے کہ ترے ہی نام نہ لے سکے
مجھے حرف و صوت کے ماورا کوئی اور خواب و خیال دے
کوئی برف سی ہے جمی ہوئی مری چوٹیاں ہیں ڈھکی ہوئی
مرا کوہسار طلوع ہو مرے پانیوں کو ابال دے
غزل
میں تمام گرد و غبار ہوں مجھے میری صورت حال دے
فرحت احساس