میں تلاش میں کسی اور کی مجھے ڈھونڈھتا کوئی اور ہے
میں سوال ہوں کسی اور کا میرا مسئلہ کوئی اور ہے
کبھی چاند چہروں کی بھیڑ سے جو نکل کے آیا تو یہ کھلا
وہ جو اصل تھا اسے کھو دیا جسے پا لیا کوئی اور ہے
کٹی عمر ایک اسی چاہ میں اسے دیکھتے کسی راہ میں
مگر اک زمانے کے بعد جو ہوا آشنا کوئی اور ہے
فقط ایک پل کے فراق میں کئی خواب کرچیاں ہو گئے
جو پلٹ کے آئے تو یوں لگا یہاں سلسلہ کوئی اور ہے
وہی لوگ ہیں وہی نام ہیں وہی گھر وہی در و بام ہیں
مگر اب دریچوں کی اوٹ سے ہمیں جھانکتا کوئی اور ہے
کسی آنے والے سفر کی جب کرو ابتدا تو یہ سوچنا
میں اکیلا اس میں شریک ہوں کہ مرے سوا کوئی اور ہے
اسے مل کے آئے تو شام کو مجھے آئنہ نے کہا سنو
وہ جو صبح دم تھا حسن رضاؔ وہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے
غزل
میں تلاش میں کسی اور کی مجھے ڈھونڈھتا کوئی اور ہے
حسن عباس رضا