میں سوچتا ہوں سبق میں نے وہ پڑھا ہی نہیں
مرے جنوں کی حکایت میں جو لکھا ہی نہیں
میں سوچتا ہوں زلیخا کی کچھ خبر آئے
مرے سوا کہیں یوسف کا کچھ پتا ہی نہیں
میں سوچتا ہو کہ اپنے خدا سے کہہ ڈالوں
وہ سب جو میں نے کبھی آج تک کہا ہی نہیں
میں سوچتا ہوں کہ سب تو تھے گوش بر آواز
وہی تھا ایک کہ جس نے کہا سنا ہی نہیں
میں سوچتا ہوں کبھی رات کے اندھیروں میں
چراغ وہ بھی جلے جو کبھی جلا ہی نہیں
میں سوچتا ہوں جو خاموشیوں کے صحرا میں
صدا کی دھند میں ساعت کا کچھ پتا ہی نہیں
میں سوچتا ہوں کہ دانا ہی ایسا کہتے ہیں
یہ سر تو غیر کے آگے کبھی جھکا ہی نہیں
غزل
میں سوچتا ہوں سبق میں نے وہ پڑھا ہی نہیں
عزیز پریہار