میں سیکھتا رہا اک عمر ہاؤ ہو کرنا
یوں ہی نہیں مجھے آیا یہ گفتگو کرنا
ابھی طلب نے جھمیلوں میں ڈال رکھا ہے
ابھی تو سیکھنا ہے تیری آرزو کرنا
ہمیں چراغوں سے ڈر کر یہ رات بیت گئی
ہمارا ذکر سر شام کو بہ کو کرنا
بھلا یہ کس نے کہا تھا حیات بخش ہے یہ عشق
کبھی ملے تو اسے مرے رو بہ رو کرنا
کسے خبر کسے ملتا ہے لمس فکر رسا
خیال یار کے ذمے ہے جستجو کرنا
مجھے بھی رنج ہے مرجھا گئے وہ پھول سے لوگ
بتا رہا ہے مرا ذکر رنگ و بو کرنا
سکوت شب نے سکھایا تھا مجھ کو آخر شب
بلا کا شور ہو جب خامشی رفو کرنا
غزل
میں سیکھتا رہا اک عمر ہاؤ ہو کرنا
اشفاق ناصر