EN हिंदी
میں شجر ہوں اور اک پتا ہے تو | شیح شیری
main shajar hun aur ek patta hai tu

غزل

میں شجر ہوں اور اک پتا ہے تو

عمران حسین آزاد

;

میں شجر ہوں اور اک پتا ہے تو
میری ہی تو شاخ سے ٹوٹا ہے تو

شاعری میں روز طوفاں سے لڑا
کیا سمندر میں کبھی اترا ہے تو

صبح تک سہمی رہیں آنکھیں مری
خواب کیسی راہ سے گزرا ہے تو

کیا خبر کب ساتھ میرا چھوڑ دے
آنکھوں میں ٹھہرا ہوا قطرہ ہے تو

کچھ کمی شاید تری مٹی میں ہے
جب سمیٹا دل تجھے بکھرا ہے تو

وقت رخصت تو برا مت کہہ اسے
عمر بھر اس جسم میں ٹھہرا ہے تو

بزدلی کیول مرے اندر ہے کیا
یوں مجھے حیرت سے کیوں تکتا ہے تو

یہ تری سازش ہے یا پھر اتفاق
میں جہاں ڈوبا وہیں ابھرا ہے تو

جو اندھیرے میں کہیں گم ہو گیا
سوچتا ہوں کیا وہی سایہ ہے تو

کیا خبر مخبر ہوا کا ہو وہی
اے دئیے جس کے لیے جلتا ہے تو

زندگی نے پھر تجھے الجھا لیا
میں نہ کہتا تھا ابھی بچہ ہے تو