میں شجر ہوں اپنے سائے کا صلہ لیتا نہیں
خوشہ چیں ہو یا مسافر شکریہ کہتا نہیں
سچ ہی کہتے ہو کہ جتنا وہ ہے میں اتنا نہیں
شاید اچھا ہے کہ جیسا وہ ہے میں ویسا نہیں
اک مسافر کی طرح ہوں کوئی گھر میرا نہیں
دل میں کچھ آزار ہیں یا شہر ہی اچھا نہیں
بارش آئی دھل گئے آنکھوں کے ویراں طاقچے
شام تھک کر سو گئی ماہ تمام آیا نہیں
تیرے حرف تلخ سے اس دل میں جتنے داغ ہیں
روکتے ہر بار ہیں لیکن رہا جاتا نہیں
رونے والے رائیگاں کی ریت پر محنت نہ کر
نرم رت کا پھول ہے دل آگ میں کھلتا نہیں
غزل
میں شجر ہوں اپنے سائے کا صلہ لیتا نہیں
مبارک حیدر