EN हिंदी
میں شہری ہوں مگر میری بیابانی نہیں جاتی | شیح شیری
main shahri hun magar meri bayabani nahin jati

غزل

میں شہری ہوں مگر میری بیابانی نہیں جاتی

فرحت احساس

;

میں شہری ہوں مگر میری بیابانی نہیں جاتی
جنوں کچھ بھی پہن لے اس کی عریانی نہیں جاتی

نہیں کچھ اور ہوگا وہ محبت تو نہیں ہوگی
کہ اتنی روشنی اتنی بہ آسانی نہیں جاتی

کھلے ہیں سارے دروازے ہمارے قید خانے کے
کہ دروازے تلک زنجیر زندانی نہیں جاتی

بتوں کو دیکھتے ہی ہوک سی اک دل میں اٹھتی ہے
دل مومن سے یاد کفر سامانی نہیں جاتی

اٹھا لاتا ہوں میں بازار سے روز اک نئی آفت
مرے گھر سے بلائے ساز و سامانی نہیں جاتی

ازل کا داغ ہجر اتنا ہمارے دل پہ روشن ہے
کہ اپنی وصل کی عرضی کہیں مانی نہیں جاتی

میں کب کا اس کی حد دید سے باہر نکل آیا
مگر اس کی طرف سے میری نگرانی نہیں جاتی

تمام اعصاب پر طاری ہے نثری نظم دنیا کی
مگر احساسؔ صاحب کی غزل خوانی نہیں جاتی