میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں
دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں
تارہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا
بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں
جوئے روان دشت ابھی سوکھنا نہیں
ساون ہے دور اور وہی شدت ہے پیاس میں
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر شکیبؔ
رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں
غزل
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
شکیب جلالی