EN हिंदी
میں سر چھپاؤں کہاں سایۂ نظر کے بغیر | شیح شیری
main sar chhupaun kahan saya-e-nazar ke baghair

غزل

میں سر چھپاؤں کہاں سایۂ نظر کے بغیر

سلیم احمد

;

میں سر چھپاؤں کہاں سایۂ نظر کے بغیر
کہ تیرے شہر میں رہتا ہوں اور گھر کے بغیر

مجھے وہ شدت احساس دے کہ دیکھ سکوں
تجھے قریب سے اور منت نظر کے بغیر

یہ شہر ذہن سے خالی نمو سے عاری ہے
بلائیں پھرتی ہیں یاں دست و پا و سر کے بغیر

نکل گئے ہیں جو بادل برسنے والے تھے
یہ شہر آب کو ترسے گا چشم تر کے بغیر

کوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا
کہ سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر

میں پاؤں توڑ کے بیٹھا رہا کہیں نہ گیا
سلیمؔ منزلیں طے ہو گئیں سفر کے بغیر