EN हिंदी
میں روز ہجر کو برباد کرتا رہتا ہوں | شیح شیری
main roz-e-hijr ko barbaad karta rahta hun

غزل

میں روز ہجر کو برباد کرتا رہتا ہوں

ترکش پردیپ

;

میں روز ہجر کو برباد کرتا رہتا ہوں
شب وصال ہی کو یاد کرتا رہتا ہوں

میری یہ انگلیاں کی پیڈ پر تھرکتی ہیں
خیال کے پرند آزاد کرتا رہتا ہوں

میں اپنے چاہنے والوں سے کیا کہوں کہ انہیں
نہ چاہتے ہوئے ناشاد کرتا رہتا ہوں

فقط دعائیں مری دسترس میں ہیں سو میں
فقط دعاؤں کی امداد کرتا رہتا ہوں

اور اس طرح سے مری شب گزر بھی جاتی ہے
سحر کو شام سے ارشاد کرتا رہتا ہوں