EN हिंदी
میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی | شیح شیری
main ro raha hun teri nazar hai itab ki

غزل

میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی

جوشؔ ملیح آبادی

;

میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی
شبنم کو پی رہی ہے کرن آفتاب کی

بجھنے پہ دل ہے سانس میں بھی ضابطہ نہیں
ظالم دہائی ہے ترے زور شباب کی

منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا روز حشر
چہرے پہ خاک مل کے در بوتراب کی

صورت پرست میری نگاہوں نے اصل میں
دل کیا مرے وجود کی مٹی خراب کی

ہر پنکھڑی کے طاق میں ہنس ہنس کے صبح کو
شمعیں جلا رہی ہے کرن آفتاب کی