میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی
شبنم کو پی رہی ہے کرن آفتاب کی
بجھنے پہ دل ہے سانس میں بھی ضابطہ نہیں
ظالم دہائی ہے ترے زور شباب کی
منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا روز حشر
چہرے پہ خاک مل کے در بوتراب کی
صورت پرست میری نگاہوں نے اصل میں
دل کیا مرے وجود کی مٹی خراب کی
ہر پنکھڑی کے طاق میں ہنس ہنس کے صبح کو
شمعیں جلا رہی ہے کرن آفتاب کی
غزل
میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی
جوشؔ ملیح آبادی