EN हिंदी
میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا | شیح شیری
main pa saka na kabhi is KHalish se chhuTkara

غزل

میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا

جاوید اختر

;

میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا
وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا

برس کے کھل گئے آنسو نتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سر شام درد کا تارا

کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا اک امانت ہے
مری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا

جو پر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی
کھلے تھے پر تو مرا آسمان تھا سارا

وہ سانپ چھوڑ دے ڈسنا یہ میں بھی کہتا ہوں
مگر نہ چھوڑیں گے لوگ اس کو گر نہ پھنکارا