میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا
وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا
برس کے کھل گئے آنسو نتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سر شام درد کا تارا
کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا اک امانت ہے
مری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا
جو پر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی
کھلے تھے پر تو مرا آسمان تھا سارا
وہ سانپ چھوڑ دے ڈسنا یہ میں بھی کہتا ہوں
مگر نہ چھوڑیں گے لوگ اس کو گر نہ پھنکارا
غزل
میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا
جاوید اختر