میں نکل کے آ گیا ہوں تری بندگی سے آگے
ابھی کتنا راستہ ہے مری زندگی سے آگے
تری شمع چھوڑ آیا تری مسجدوں میں یا رب
میں تجھی کو ڈھونڈتا ہوں تری روشنی سے آگے
مرا حال ہو کچھ ایسا تجھے پا کے بھول جاؤں
کوئی ایسی بے خودی ہو مری بے خودی سے آگے
جہاں موت سمجھوں اپنی وہیں زندگی جواں ہو
کوئی راستہ نہ پاؤں میں تری گلی سے آگے
وہ چراغ جل نہ پائے ملے دل میں اے مصورؔ
کوئی اور شاعری ہے مری شاعری سے آگے

غزل
میں نکل کے آ گیا ہوں تری بندگی سے آگے
مصور فیروزپوری