EN हिंदी
میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے | شیح شیری
maine virane ko gulzar bana rakkha hai

غزل

میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے

لتا حیا

;

میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے
کیا برا ہے جو حقیقت کو چھپا رکھا ہے

دور حاضر میں کوئی کاش زمیں سے پوچھے
آج انسان کہاں تو نے چھپا رکھا ہے

وہ تو خود غرضی ہے لالچ ہے ہوس ہے جن کا
نام اس دور کے انساں نے وفا رکھا ہے

وہ مرے صحن میں برسے گا کبھی تو کھل کر
میں نے خواہش کا شجر کب سے لگا رکھا ہے

میں تو مشتاق ہوں آندھی میں بھی اڑنے کے لئے
میں نے یہ شوق عجب دل کو لگا رکھا ہے

میں کہ عورت ہوں مری شرم ہے میرا زیور
بس تخلص اسی باعث تو حیاؔ رکھا ہے