میں نے اسی سے ہاتھ ملایا تھا اور بس
وہ شخص جو ازل سے پرایا تھا اور بس
لمبا سفر تھا آبلہ پائی تھی دھوپ تھی
میں تھا تمہاری یاد کا سایہ تھا اور بس
حد نگاہ چار سو کرنوں کا رقص تھا
پہلو میں چاند جھیل کے آیا تھا اور بس
اک بھیڑیا تھا دوستی کی کھال میں چھپا
اس نے مرے وجود کو کھایا تھا اور بس
پھر یوں ہوا ہوائیں تھیں رقصاں تمام رات
اک طاقچے میں دیپ جلایا تھا اور بس
دونوں طرف کی رنجشیں اشکوں میں بہہ گئیں
اک شخص میرے خواب میں آیا تھا اور بس
اس کارزار زیست میں ہم نے تمام عمر
ارشدؔ کسی کا عشق کمایا تھا اور بس
غزل
میں نے اسی سے ہاتھ ملایا تھا اور بس
ارشد محمود ارشد