میں نے تجھے تجھ سے کبھی ہٹ کر نہیں دیکھا
جو کچھ بھی ہوا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
جب سے کہ نگاہوں میں بسی ہے تری صورت
قرآن کے اوراق الٹ کر نہیں دیکھا
راتوں کو اندھیرے ہی نگہبان تھے تیرے
تجھ کو تری نیندوں نے اچٹ کر نہیں دیکھا
معیار کا قیمت کا کہاں اس کو پتہ ہو
جس مال نے خیرات میں بٹ کر نہیں دیکھا
اک چیز سمندر ہے مگر تو نے کبھی بھی
موجوں کی روانی سے لپٹ کر نہیں دیکھا
اک قادری رتبہ ہے جمیلؔ اپنے لیے بھی
خود کو کسی انداز سے گھٹ کر نہیں دیکھا

غزل
میں نے تجھے تجھ سے کبھی ہٹ کر نہیں دیکھا
جمیل الدین قادری