EN हिंदी
میں نے تجھ کو کھویا تھا میں نے تجھ کو پایا ہے | شیح شیری
maine tujhko khoya tha maine tujhko paya hai

غزل

میں نے تجھ کو کھویا تھا میں نے تجھ کو پایا ہے

معصوم شرقی

;

میں نے تجھ کو کھویا تھا میں نے تجھ کو پایا ہے
وہ بھی ایک دھوکہ تھا یہ بھی ایک دھوکہ ہے

بیٹھے شیش محلوں میں تم سمجھ نہ پاؤ گے
خار کیسے پاؤں میں درد بن کے چبھتا ہے

دور ہو نگاہوں سے پاس ہو رگ جاں کے
دل کا دل سے رشتہ ہے اس میں معجزہ کیا ہے

اصل زندگی ہے کیا کیا کھلے کہ تم نے تو
سانس کی کسوٹی پر زندگی کو پرکھا ہے

خون آرزوؤں کا گھل گیا نہ ہو شرقیؔ
صبح نو کے ماتھے پر احمریں اجالا ہے