میں نے تجھ کو کھویا تھا میں نے تجھ کو پایا ہے
وہ بھی ایک دھوکہ تھا یہ بھی ایک دھوکہ ہے
بیٹھے شیش محلوں میں تم سمجھ نہ پاؤ گے
خار کیسے پاؤں میں درد بن کے چبھتا ہے
دور ہو نگاہوں سے پاس ہو رگ جاں کے
دل کا دل سے رشتہ ہے اس میں معجزہ کیا ہے
اصل زندگی ہے کیا کیا کھلے کہ تم نے تو
سانس کی کسوٹی پر زندگی کو پرکھا ہے
خون آرزوؤں کا گھل گیا نہ ہو شرقیؔ
صبح نو کے ماتھے پر احمریں اجالا ہے

غزل
میں نے تجھ کو کھویا تھا میں نے تجھ کو پایا ہے
معصوم شرقی