میں نے سن رکھی ہے صاحب ایک کہانی دریا کی
شام کنارے بیٹھ کے اک دن وہ بھی زبانی دریا کی
ورنہ ہم بھی آئینے کے بھید سے واقف ہو جاتے
ہم نے اپنی من مانی کی ایک نہ مانی دریا کی
ریت کے چھوٹے ٹکڑے پر ہی آبادی مقصود ہوئی
اسی بہانے چاروں جانب ہے سلطانی دریا کی
آنکھیں ہی اظہار کریں تو شاید کوئی بات بنے
سورج ڈھلتے وقت جو دیکھی تھی ویرانی دریا کی
صبح ازل سے ایک ہی جیسے ملتے جلتے دریا ہیں
کس نے دیکھی کس نے جانی شکل پرانی دریا کی
سات سمندر دیکھنے لگ گئے اپنے بڑھاپے کی جھریاں
اپنے جوبن پر جب آئی شوخ جوانی دریا کی

غزل
میں نے سن رکھی ہے صاحب ایک کہانی دریا کی
اسامہ امیر