میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا
صرف اس رات اندھیروں نے مجھے دیکھا تھا
پوچھتا پھرتا ہوں میں اپنا پتہ جنگل سے
آخری بار درختوں نے مجھے دیکھا تھا
یوں ہی ان آنکھوں میں رہتی نہیں صورت میری
آخر اس شخص کے خوابوں نے مجھے دیکھا تھا
اس لئے کچھ بھی سلیقے سے نہیں کر پاتا
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں نے مجھے دیکھا تھا
ڈوبتے وقت بچانے نہیں آئے لیکن
یہی کافی ہے کہ اپنوں نے مجھے دیکھا تھا
غزل
میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا
عابد ملک