EN हिंदी
میں نے کوشش کی بہت لیکن کہاں یکجا ہوا | شیح شیری
maine koshish ki bahut lekin kahan yakja hua

غزل

میں نے کوشش کی بہت لیکن کہاں یکجا ہوا

جہانگیر نایاب

;

میں نے کوشش کی بہت لیکن کہاں یکجا ہوا
صفحۂ ہستی کا شیرازہ رہا بکھرا ہوا

ذہن کی کھڑکی کھلی دل کا دریچہ وا ہوا
تب جہاں کے درد سے رشتہ مرا گہرا ہوا

کیا پتہ کب کون اس کی زد پہ آ جائے کہاں
وقت کی رفتار سے ہر شخص ہے سہما ہوا

کس کی یاد آئی معطر ہو رہے ہیں ذہن و دل
کس کی خوشبو سے ہے سارا پیرہن مہکا ہوا

پیڑ کے نیچے شکاری جال پھیلائے ہوئے
اور پرندہ شاخ پر بیٹھا ڈرا سہما ہوا

دو قدم بھی اب تمہارے ساتھ چلنا تھا محال
راہ تم نے خود الگ کر لی چلو اچھا ہوا

زندگی ہر زاویے سے دیکھتا ہوں میں تجھے
ہے مری فکر و نظر کا دائرہ پھیلا ہوا

چھپ گئی پانی میں اپنی چھب دکھا کر جل پری
آج پھر نایابؔ میرے ساتھ اک دھوکہ ہوا